گرمیاں کیسے گٔزاریں
چند دن پہلے ایک کام کے سلسے میں اپنے گھر سے تقریبا ۴۵ منٹ کی ڈرائیو پہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ صبح کا وقت تھا ٹریفک بھی کم تھا ، دھوپ کی ہلکی تمازت طبیعت کو بڑی بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ ماحول بہت پٔر سکون تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر سڑک کے کنارے لگی ہوِئی ہورڈنگ پہ پڑی ۔ جیسے جیسے گاڑی اپنا رستہ عبور کرتی جاتی یکے بعد دیگرے ایک نیا بورڈ نگاہوں اور توجہ کو اپنی جانب کھینچتا اور یہ سلسلہ دورانِ ِ سفر چلتا ہی رہا۔ یون کہئے کہ اگر آپ روڈ کے ایک کنارے کھڑے ہیں تو تا حدِ نگاہ آپکو ان ہورڈنگز کے علاوہ شاید ہی کچھ اور دکھا ئی دے ۔ وہ کیفیت جو صبح کی تازگی اور پٔر سکون ماحول سے طاری ہوئی تھی اچانک ہی کہیں غائب ہو گئی اور دل و دماغ میں ایک بے چینی اور خیالات میں بے ترتیبی پیدا ہو گئی۔
ہر نئی ہورڈنگ پہ "بنتِ حوا" لان کے کسی نہ کسی مشہور برانڈ کی نمائندگی کرتی نظر آئی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جس چیز کی پبلسٹی کی جا رہی ہے أسکا کپڑا ، رنگ اور ڈیزائن اتنے واضح نہیں تھے البتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
المیہ یہ ہے کہ جس معاشرے کی نصف سے زائد آبادی کی قوتِ خرید اس درجہ کمزور ہوکہ وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات بھی باآسانی حاصل نہ کر سکے ایسے معاشرے میں ان ملبوسات کی غیر ضروری اور غیر اخلاقی نمائش ان افراد پر کیا اثر ڈالے گی۔۔۔۔۔؟ لیجئے اسکا حل بھی بڑا آسان ہے جو اوسط آمدنی والا شخص ہو وہ ان مشہور برانڈز کی کاپی خرید لے اور جو بیچارہ اسکی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ کاپی کی بھی کاپی خرید لے۔
ہاں مگر گرمیاں گزارنے کا اس سے بہتر طریقہ کچھ اور نہیں ہو سکتا !
کم از کم اس ۴۵ منٹ کی ڈرائیو سے میں نے تو یہی جانا۔
عنبرنفیس
Comments
Post a Comment